مائنڈ سیٹ یا تنزل؟

Dr. Safdar Mehmood, Columnist

مائنڈ سیٹ یا تنزل؟


ہمیں غور اور تجزیہ کرنا چاہئے اپنے قومی رویے، سیاسی روایات اور مائنڈ سیٹ کا کیونکہ مجھے کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے صدیوں کا سفر طے کرنے کے باوجود ہمارا مائنڈ سیٹ اور فکری رویے نہیں بدلے، ہم صدیوں پرانے ذہنی سانچے سے نہیں نکلے حالانکہ ہمارا نظام حکومت بدل گیا، شرح خواندگی بڑھ گئی، اندرون و بیرون ملک سے اعلیٰ ترین ڈگریوں والے حضرات کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سیاسی شعور اور سیاسی آگاہی کی سطح نہایت بلند ہوگئی۔ صدیوں پہلے نہ اخبارات ہوتے تھے، نہ ٹی وی چینلز ہوتے تھے،نہ آزادی فکر و اظہارکی نعمت میسر تھی اور نہ ہی انفارمیشن سینکڑوں ہزاروں میلوں کا سفر منٹوں میں طے کرتی تھی۔ حتیٰ کہ اسکولوں کی جگہ مدرسے ہوتے تھے جہاں مذہبی تعلیم کے ساتھ تھوڑی سی اخلاقی تربیت کا ساماں ہوتا تھا۔ آج اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا جال بچھا ہوا ہے اور ہمارا خواندہ طبقہ امریکہ انگلستان اور دوسرے اہم ممالک کے بارے میں اتنی ہی معلومات رکھتا ہے جتنی اپنے ملک کے بارے میں۔ ان علمی و فکری ’’ترقیوں‘‘ کے ساتھ ساتھ جمہوری عمل کے پروان چڑھنے کا سلسلہ بھی جاری ہے، انتخابات بھی ہوتے ہیں اور لوگوں کو رائے دینے یا ووٹ دینے کا حق بھی دستیاب ہے اور ظاہر ہے کہ وہ بیلٹ باکس میں پرچی ڈالنے سے قبل امیدوار کا فیصلہ بھی سوچ کر یا کسی نہ کسی جذبے اور محرک کے تحت کرتے ہیں۔ اس تمام تر تعلیمی، معاشرتی، معلوماتی (انفارمیشن) اورسیاسی ترقی کے باوجود ہمارے مائنڈ سیٹ یا ہمارے فکری و سیاسی رویے میں اس قدر ترقی اور بلوغت نظر نہیں آتی جو صدیوں کے سفر کا نتیجہ یا تحفہ ہونا چاہئے تھی۔ سوچنے کی بات ہے کہ دنیا بدل گئی، گھوڑوں کی سواری کی جگہ بسوں، ٹرینوں اور ہوائی جہازوں نے لے لی۔ بادشاہتوں اور علاقائی وڈیروں کی جگہ اسمبلیاں اور منتخب حکومتیں آگئیں، رعایا کی جگہ عوام اقتدار کاسرچشمہ بن گئے، ابا جی کو ڈیڈی کہہ کر پکارا جانے لگا، آنکھوں میں خوف کی جگہ بے خوفی کا مورچہ قائم ہوگیا اور ہر طرف انسانی برابری اور مساوات اورانسانی حقوق کا درس دیا جانے لگا لیکن اس قدر حیرت انگیز ترقی اور شاندار تبدیلی کے باوجود ہمارا مائنڈ سیٹ اور سیاسی رویہ کیوں نہیں بدلا؟
تاریخ ایک زبردست آئینہ ہوتی ہے جو نہ صرف ماضی کی عکاسی کرتی ہے بلکہ زندگی کے سفر پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مغلوں نے ہندوستان پر دو صدیوں سے زیادہ موثر حکمرانی کی۔ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد مغل حکمرانوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور اٹھارویں صدی کے نصف تک بادشاہ سلامت محض علامتی یا ملامتی بادشاہ بن کر رہ گئے۔ مغلیہ دور حکومت کی نسبت رنجیت سنگھ کا دور حکومت مقابلتاً نزدیک کی بات ہے اور تاریخی حوالے سے صرف 168برس پرانا قصہ ہے۔ رنجیت سنگھ نے 1801سے لیکر 1839تک پنجاب پر حکمرانی کی اور اس کی سلطنت چند علاقوں کے استثنیٰ کے ساتھ تقریباً موجودہ پاکستان کے بیشتر علاقوں پر محیط تھی۔ میں اس بات سے محظوظ ہوتا ہوں کہ محترم ایاز صاحب صرف رنجیت سنگھ کو پنجاب کا لیڈر مانتے ہیں اور اس موجودہ سیاسی لیڈر کی لیڈر شپ سے بھی انکاری ہیں جس کے ہاتھ پر خود انہوں نے بیعت کی تھی حالانکہ بیعت کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں، کچھ ادب ملحوظ خاطر ہوتا ہے لیکن یہ بات سچ ہے کہ جمہوریت نے آزادی کی آڑ میں ادب آداب پر گہری چوٹ لگائی ہے اور اسے قصۂ پارینہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ بہرحال مجھے رنجیت سنگھ کی یہ ادا پسند ہے کہ اس نے اپنا حرم رنگا رنگ حسینوں سے آباد کر رکھا تھا۔ یہ رسم آج بھی جاری ہے اور پنجاب کے بعض حکمران رنگا رنگ حرم کے حوالے سے منفرد شہرت بھی رکھتے ہیں لیکن رنجیت سنگھ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کی وفات پر اس کی چار ہندو ’’رانیوں‘‘ اور سات لونڈیوں نے ستی کی رسم ادا کی اور یہ گنگناتے ہوئے اپنے آپ کو نذر آتش کر دیا کہ ’’تیرے بنا کیا جینا‘‘۔ سنگت سنگھ نے سکھ ہسٹری میں اس کا خوب ذکر کیا ہے۔
گورنمنٹ کالج لاہور میں میرے ایک کلاس فیلو نے بڑی دلچسپ نظم لکھی تھی جسے سن کر ہم لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس نظم کا پہلا مصرعہ تھا ’’کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں‘‘۔ جب میں نے ڈاکٹر سنگت سنگھ کی سکھ ہسٹری پڑھی تو اچانک یہ نظم یاد آگئی کیونکہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد جب اس کی اولاد میں جنگ تخت نشینی شروع ہوئی تو اس کا پہلا جانشین کھڑک سنگھ تھا۔ دوسرا نونہال سنگھ تیسرا شیر سنگھ پھر مہارانی چاند کور پھر دوبارہ شیر سنگھ اور آخر میں پانچ سالہ کمسن بچے دلیپ سنگھ کو تخت نشین کردیا گیا۔ دلیپ سنگھ نے ساڑھے پانچ برس حکومت کی حتیٰ کہ مارچ 1849ء میں انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کر لیا اور اسے اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا۔ دلیپ سنگھ کو لمبا چوڑا وظیفہ دے کر لندن پیرس بھجوا دیا گیا یا جلاوطن کردیا گیا تاکہ وہاں کی گوریاں اس کی تربیت جمہوری خطوط پر کریں اور اس کے مائنڈ سیٹ میں یہ خیال شامل کریں کہ جب خاندان میں کوئی اہل حکمران موجود نہ رہے تو اقتدار کو مضبوطی سے جاری رکھنے کے لئے اپنے مخلص حمایتیوں میں سے کسی کوقیادت سونپی جاسکتی ہے۔ اگرقیادت پر صرف اپنے خاندان کا حق سمجھا جائے تو اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ کوئی طاقتور جانشینی کے کھیل کو بکھیر کر رکھ دیتا ہے اور ہاں! یہی دلیپ سنگھ تھا جس سے انگریزوں نے روشنیوں کے پہاڑ جیسا لاجواب کوہ نور ہیرا ملکہ برطانیہ کو بطور ہدیہ عقیدت پیش کروایا؎ ہے جرم ضعیفی کی سزا، مرگ مفاجات۔
ہاں تو میں عرض کررہا تھا کہ مغلیہ بادشاہت تو بہت پرانی بات ہے مگر رنجیت سنگھ کی حکومت ابھی کل کی بات لگتی ہے حالانکہ اسے ختم ہوئے پونے دو سو سال ہونے کو ہیں۔ رنجیت سنگھ کے مرنے کے بعد سکھ دس سال حکمران رہے اور ان دس برسوں میں چھ حکمران بدلے حتیٰ کہ پانچ سالہ کھلونوں سے کھیلتے دلیپ کو تخت پہ بٹھا دیا گیا اور اس کے پس پردہ رانی حکومت کرنے لگی۔ ڈاکٹر سنگت کے بقول اگر کسی اہل اور مضبوط شخصیت کو عنان حکومت دے دی جاتی تو سکھ حکومت طویل عرصے تک قائم رہ سکتی تھی لیکن اقتدار کو گھر تک محدود رکھنا ہمارا مائنڈ سیٹ ہے۔ صدیاں گزر گئیں، سیاست، معاشرت، تعلیم اور ذہنی و فکری رویوں نے طویل سفر طے کر لیا ہے لیکن شعور کی اس چکاچوند ترقی نے ہمارا مائنڈ سیٹ نہیں بدلا اور نہ ہی جمہوریت نے ہمارے فکری سانچے میں سرنگ لگائی ہے۔ آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے بعد بلاول زرداری بھٹو۔ اسی طرح میاں نوازشریف کے بعد مریم نواز یا مریم صفدر کیونکہ حسین نواز لندن ہجرت کر گئے ہیں ورنہ یہ تاج ان کے سر پہ پہنایا جاتا۔ اسی طرح شہباز شریف کے بعد حمزہ شہباز۔ گویا سیاسی حوالے سے ہم ابھی تک رنجیت سنگھ کے دور میں رہ رہے ہیں اور گزرنے والے 168برسوں نے نہ ہمارا مائنڈ سیٹ بدلا ہے نہ سائنسی، سیاسی اور تعلیمی ترقی نے ہمارے ذہنی رویے کا کچھ بگاڑا ہے۔ کیا آپ اسے ترقی کہتے ہیں؟ یا تنزل؟
Share:

No comments:

Post a Comment

Thanks for visiting this page.

Followers

Popular Posts

Video Of Day

>